(سانحہ سیہون شریف پر لکھی گئی ایک علامتی
(یا شاید ملامتی)تحریر)
لاہور
مال روڈ پر دھماکے میں کئی افراد چل بسے …
سیہون
شریف میں دربارِلعل شہباز قلندرمیں دھماکہ، 70شہید، سینکڑوں زخمی…
وزیر
اعظم اور صدر کی سانحے کی مذمت…
دہشت
گردوں کی کمر توڑ کر دَم لیں گے…
پی
ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کے لیے
ہر ممکن مدد کریں گے …
پنجاب
میں کومبنگ آپریشن سو سے زائد مشکوک افراد گرفتار…
ایسی
خبروں سے میرا جی گھبرا یا تو میں نے محافظ چاچا عرف چاچابے پرواہ کی بیٹھک کا
رُخ کیا۔ محافظ چچاعرصہ ہوا کہیں چوکیداری
کرتے تھے ۔لیکن نوکری سے نکال دئیے گئے ۔اتفاق سے ان کا بیٹا ہونہار نکلا۔اُسے
سرکاری ملازمت مل گئی ۔ چاچا کو پھر کام کی ضرورت تھی نہ حاجت ۔ جبھی انہوں نے یہ بیٹھک آباد کی۔
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
انہوں
نے آج تک کسی کو نوکری سے نکالے جانے کی وجہ نہیں
بتائی تھی۔وہ پرانے زمانے کے مڈل فیل تھے ۔البتہ باتوں کے پہلوان تھے اور ان کاایک ٹریڈ مارک جملہ تھا
کہ
''میں
پرانے دَور دِیاں اَٹھ فیل آں ۔ تے اُس دَور دِیاں اَٹھ فیل تے اَج دے سولہ پاس
اِک برابر نے ''
(میں پرانے دَور کا مڈل فیل ہوں اور اُس وقت کا مڈل فیل اورآج کے سولہ پاس ایک
برابر ہیں )
میں بھی
ڈگری ملنے کے بعد سے بے روزگار ہوں ۔اس لیے گاہے گاہے چاچا کی بیٹھک پر حاضری دیتا
رہتا ہوں ۔چاچا کی میرے ساتھ گاڑھی چھننے
لگی ہے۔ ایک دِن میں نے باتوں ہی باتوں
میں اُن سے پوچھ ہی لیا کہ
''یہ جو آپ اپنے مڈل فیل ہونے کو آج کے سولہ پاس
کے برابر کہتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ''
تو وہ ذرا سا میری طرف جھکے اور آواز کو
رازدارانہ بناتے ہوئے بولے:
''اَج
کل دِیاں سولہ پاس نوں وی انگریزی نئیں آؤندی
تے مینوں وی نئیں آؤندی''
(آج
کل کے سولہ پاس کو بھی انگریزی نہیں آتی
اور مجھے بھی نہیں آتی)
میں چچا کی بیٹھک پر پہنچا
تو وہ حسب ِ معمول آرام کرسی پر بیٹھے حقہ تازہ کرنے میں مصروف تھے ۔سلام دُعاکے بعد میں نے خواہ مخواہ چاچا کو چھیڑنے کی غرض سے پوچھا
کہ
''چاچاجی !آپ کو بھلا نوکری سے کیوں نکالا گیا تھا ؟''
چاچا
آج کسی دوسرے ہی موڈ میں تھے۔ وگرنہ وہ ایسا سوال پوچھنے والوں کی سات پشتوں
کو یاد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔انہوں
نے حقے کی نے منہ میں رکھی اور گڑ
گڑا کر پہلا کش لیتے ہوئے بولے:
''میں جس محلے میں
چوکیدار تھا۔ وہاں میرے ہوتے چوری
ہو گئی تھی''
''محض
ایک چوری کی وجہ سے آپ کو نکال دیا گیا؟''
میں حیرت زدہ تھا۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
''ہاں ، وہاں
ایک بینک کھلنے والا تھا ۔جواس واقعے کے بعد کبھی نہیں کھل سکا''
چچا
نے دو چار کش اکٹھے ہی لیے اور فضا کو دھواں
دھار کر دیا۔
''تو
آپ نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟''
میں حیرت سے باہر نہیں نکل سکا تھا۔
''کس
بات پر ؟اپنی نااہلی پر؟''
چاچا
دھویں کے عقب سے بولے ۔
''نہیں
! پرآپ اور بہت کچھ کر سکتے تھے''
میں مُصر رہا۔
''مثلاََ؟''
انہوں
نے دھوئیں کا ایک اوربادل اُڑایا۔
''مثلاََآپ
فوری طور پر چوری کی مذمت کرتے ۔ متا ثرہ خاندان کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بولتے ۔چور
کی تلاش میں کومبنگ آپریشن شروع کردیتے ۔ بینک کھلنے کے لیے ہر ممکن مدد کا اعلان
کردیتے''
خبروں کی جو کھچڑی میرے دماغ میں پک رہی تھی وہ منہ کے رستے نکل گئی ۔
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
''ایسی
باتوں سے کیا لوگوں کا اعتماد بحال ہو جاتا ؟''
چچا
خود کو غلط تسلیم کیے جارہے تھے لیکن مجھے درست ہونے کا موقع نہیں دے رہے تھے۔
''آپ
چوروں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کردیتے''
میں نے آخری داؤ کھیلا۔
''نہیں پتر!تمہیں
پتا ہے کہ لوگ چوکیدار کو 'جاگتے رہو'پر لگا کے اطمینان کے ساتھ سو
کیوں جاتے ہیں؟ ''
دھواں
چھٹنے لگا تھا۔شاید حقے میں تمباکوکم ہورہاتھا۔
چچا
میرے ''کیوں ''بولنے سے پہلے ہی بولنے لگے:
''وہ
اس لیے سو جاتے ہیں کہ انہیں اُس پر اعتماد ہوتا ہے۔ اُس محلے کے امام مسجد نے مجھ سے فقط ایک سوال
پوچھا تھا اور میرے پاس اُس کا کوئی جواب نہیں
تھا ''
''کون سا سوال؟''
میں نے غور سے محافظ چاچا کی طرف دیکھا ۔ حقے کی آگ
آہستہ آہستہ بجھتی جارہی تھی ۔دھواں
بدستور کم ہورہاتھا۔
''اُس
کم بخت نے کہا تھا کہ ہم نے سالم محلہ تمہارے سپرد کیا تھا۔ تمہارے ہوتے ایک گھر
میں نقب لگ گئی۔ تم ہمارامحلہ توڑنے کے ذمہ دار ہو۔ کیا تم اب
بھی خود کو اَمین سمجھتے ہو؟ ''
''تو
آپ کے آنے کے بعد کیا وہاں کبھی چوری
نہیں ہوئی؟''
میں نے چوکیدار چاچا سے ہمدردی کی آخری حد کو جانا
چاہا۔
''نہیں
''
''پر کیسے؟؟ کیا نیا چوکیدار آپ سے زیادہ قابل
تھا''
میں نے چاچا کا بھرم رکھنا چاہا''
''نہیں
وہ زیادہ قابل نہیں تھا لیکن اُسے
میرا انجام یاد تھا''
حقہ
ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ دھواں کہیں غائب ہو گیا تھا ۔چاچا کا چہرہ صاف دکھائی دے
رہا تھا ۔دھوئیں کاکوئی بادل شاید ان کے
چہرے پر برس گیا تھا کیونکہ اُن کی آنکھیں
نم آلودہ تھیں ۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے